آج بروز پیر 13اگست کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی خصوصی بینچ نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد اور کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست پر سماعت کی۔ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو غیر قانونی طور پر پاکستان داخل ہونے پر گرفتار کیا۔اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان میں بھارتی خفیہ ایجنسی’را‘ کے ایما پر دہشت گرد کارروائیوں اور پاکستان میں موجود اپنے نیٹ ورک کو منظم کرنے میں ملوث ہونے اور جاسوسی کا اقرار کیا۔ ملٹری کورٹ نے کلبھوشن یادیو کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل کر کے سزا سنائی تھی. 12 مارچ 2017 کو کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کی سزا سنا دی گئی تھی۔۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ 2017 میں بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیاتھا۔ بھارت کلبھوشن کیس میں پیچیدگیاں تلاش کرکے ریلیف لینا چاہتا ہے، بھارت نے یہ تاثر دیا کہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔ بھارت نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرنے اور کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہ دینے الزام لگایا۔ عالمی عدالت انصاف نے سزائے موت پر حکم امتناع جاری کیا جو آج بھی موجود ہے۔
عدالت کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پاکستان تمام بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کررہا ہے، پاکستان نے کبھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرڈیننس جاری کر کے سزا کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا موقع دیا گیا۔ اگر کوئی قیدی اپنے لیے وکیل نہ کر سکے تو عدالت اسے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے وکیل مہیا کرتی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اب اگر معاملہ ہائی کورٹ میں ہے تو کیوں نا بھارت کو ایک اور موقع دیا جائے، بھارت اور کلبھوشن یادیو کو ایک بار پھر قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی پیشکش کریں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم رابطہ کرنے کے لیےتیار ہیں بھارت اور کلبھوشن کو وکیل کی پیشکش کریں گے، ہم دفتر خارجہ کے ذریعے دوبارہ بھارت سے رابطہ کریں گے، عدالت نے درخواست پر سماعت 3 ستمبر تک ملتوی کردی۔



Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.