واشنگٹن / سیول:- وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ہفتے اپنے ایشیا کے پانچ روزہ سفارتی دورے کے دوران چین کے صدر شی جن پنگ سے جنوبی کوریا میں ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات دونوں طاقتور رہنماؤں کے درمیان اُس وقت ہونے جا رہی ہے جب امریکا اور چین کے درمیان اقتصادی کشیدگی، ایشیائی خطے میں طاقت کے توازن اور عالمی تجارتی پالیسیوں پر مسلسل بحث جاری ہے۔
ٹرمپ کا یہ دورہ تین ممالک پر مشتمل ہے۔ ملائیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، صدر کا مقصد “ایشیا میں امریکی موجودگی کو مضبوط بنانا، اتحادی ممالک کے ساتھ دفاعی شراکت داری بڑھانا، اور چین کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی سمت دینا” ہے۔
صدر ٹرمپ 28 اکتوبر کو ملائیشیا پہنچیں گے جہاں وہ اقتصادی شراکت داری (ASEAN+) اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اس کے بعد وہ جاپان جائیں گے جہاں وزیراعظم فومیو کشیدا سے ملاقات ہوگی۔ آخری منزل سیول ہے جہاں 31 اکتوبر کو ان کی ملاقات شی جن پنگ سے طے پائی ہے۔یہ ملاقات ایسے وقت میں ہونے جا رہی ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات گزشتہ برسوں میں بدترین سطح تک پہنچ چکے ہیں۔
امریکا نے چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔جس کے جواب میں چین نے نایاب معدنیات (Rare Earths) کی برآمدات محدود کر دی ہیں، جو امریکی الیکٹرانکس اور دفاعی صنعت کے لیے بنیادی خام مال ہیں۔تائیوان، جنوبی بحیرہ چین اور عالمی تجارتی راستوں پر بڑھتی کشیدگی نے خطے میں سفارتی بے چینی کو جنم دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کی اس ملاقات کا بنیادی مقصد “تجارتی جنگ کے دباؤ کو کم کرنا” اور “نئی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنا” ہے۔
وائٹ ہاؤس ترجمان کارولین بیٹز نے پریس بریفنگ میں کہا:
“صدر ٹرمپ ایشیا کے دوست ممالک کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ امریکا اور چین عالمی معیشت کے لیے ایک دوسرے کے شراکت دار بن سکتے ہیں، بشرطیکہ تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہوں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی کوریا کو بطور میزبان منتخب کرنا “خطے میں استحکام کے عزم” کا اظہار ہے۔
بیجنگ نے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ صدر شی جن پنگ “سنجیدہ، کھلے اور تعمیری مکالمے” کے حامی ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا:
“چین چاہتا ہے کہ دنیا کی دو بڑی معیشتیں محاذ آرائی نہیں بلکہ تعاون کی راہ اختیار کریں۔”
یہ ملاقات صرف امریکا اور چین تک محدود نہیں بلکہ پورے ایشیا پیسیفک خطے پر اثر ڈال سکتی ہے۔اگر دونوں ممالک تجارتی معاہدوں پر پیش رفت کرتے ہیں، تو عالمی مارکیٹوں میں استحکام آ سکتا ہے۔دفاعی امور میں تعاون بڑھا تو بحیرہ جنوبی چین میں تناؤ کم ہو سکتا ہے۔توانائی اور ٹیکنالوجی کے اشتراک سے عالمی سپلائی چین میں نئی جان پڑ سکتی ہے۔
ٹرمپ اس ملاقات کو اپنے دوبارہ انتخابی بیانیے میں اہم کامیابی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، جبکہ شی جن پنگ اسے چین کی عالمی قیادت کے تسلسل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
یہ دورہ نہ صرف سفارتی لحاظ سے بلکہ عالمی سیاسی منظرنامے کے لیے بھی ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے نتائج پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہیں۔



 

Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.