اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی پیش کردہ اہم قرارداد منظور کر لی ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزّہ امن منصوبے کی باضابطہ توثیق کی گئی ہے۔ اس قرارداد میں غزّہ کے لیے بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کی تعیناتی اور ’’بورڈ آف پیس‘‘ کے نام سے ایک عبوری گورننس ادارے کے قیام کی منظوری شامل ہے، جو تعمیر نو، بحالی اور انتظامی معاملات کی نگرانی کرے گا۔ روس اور چین نے قرارداد کی منظوری کے وقت ویٹو استعمال کرنے کے بجائے عدم شرکت اختیار کی جس کے باعث یہ مسودہ آسانی سے سیکورٹی کونسل سے منظور ہو گیا۔
قرارداد کے مطابق بین الاقوامی فورس کو غزّہ میں عسکری ڈھانچے کے خاتمے، ہتھیاروں کی تحلیل اور امن و استحکام کے قیام کے لیے عملی اقدامات کا اختیار دیا گیا ہے۔ امریکی مندوب مائیک والز نے اس قرارداد کو ’’غزّہ کو جنگ سے تعمیر اور ترقی کی جانب لے جانے کا راستہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ فلسطینی خود ارادیت کو ایک قابلِ اعتماد مرحلے تک پہنچنے میں مدد دے سکتی ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے قرارداد کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی، نہ ہی غزّہ پر کسی قسم کی بین الاقوامی سرپرستی قبول کرے گی۔ حماس کے مطابق یہ قرارداد غزّہ پر بیرونی کنٹرول کی نئی شکل ہے جو ان کے نزدیک ناقابلِ قبول ہے۔
روس اور چین نے قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دینے کے باوجود واضح کیا کہ اس میں اقوامِ متحدہ کا کردار واضح نہیں اور نہ ہی بین الاقوامی فورس اور بورڈ آف پیس کے اختیارات کی شفاف وضاحت موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو امریکی منصوبے کی توثیق کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ غزّہ کے مستقبل کے حوالے سے UN کی مرکزی حیثیت کمزور دکھائی دیتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور غزّہ کے مستقبل میں کسی بھی عسکری طاقت کی گنجائش نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق اسرائیل غزّہ کی عسکری صلاحیت ’’آسان یا سخت‘‘ کسی بھی طریقے سے ختم کر کے رہے گا۔ اسرائیل پہلے ہی ٹرمپ کے منصوبے کے ابتدائی مرحلے یعنی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کر چکا ہے۔
اس قرارداد کے بعد خطے میں ایک نئے سیکیورٹی ڈھانچے کے قیام کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ غزّہ میں پہلی بار بین الاقوامی استحکام فورس کی تعیناتی، عالمی نگرانی میں تعمیرِ نو کے منصوبے، اور فلسطینی ریاست کے قابلِ اعتماد راستے کی بحث نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہیں۔ امریکہ اس منصوبے کا مرکزی ثالث بن کر ابھر رہا ہے جبکہ علاقائی ممالک کے اس فورس میں شمولیت کے امکانات بھی زیرِ غور ہیں، جو آنے والے برسوں میں غزّہ کے سیاسی اور سیکیورٹی مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سک
تے ہیں۔



Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.