اسلام آباد: 27ویں آئینی ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں کامیابی سے آگے بڑھنے کے بعد حکومت نے وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court - FCC) کے قیام کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اس عدالت کا مقصد آئین کی تشریح، وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات کا حل نکالنا ہے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے سات ججوں کے نام شارٹ لسٹ کر لیے ہیں۔جن میں
- جسٹس امین الدین خان کو چیف جسٹس FCC بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔جسٹس امین الدین خان کا ملتان سے تعلق ہے،انہوں نے 1984 میں ایل ایل بی کیا تھا،اوروہ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
جبکہ دیگر ناموں میں
- جسٹس سید حسن اظہر رضوی جو کراچی میں 1962 میں پیدا ہوئےتھے اور وہ آئینی و انتظامی قانون کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں،
- جسٹس مسرت ہلالی جو پہلی خاتون چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تھی ، وہ 2023 میں سپریم کورٹ میں شامل ہوئیں۔
- جسٹس عامر فاروق، جسٹس عامر فاروق سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ رہ چکے ہیں ،انہوں نے لندن سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔
- جسٹس علی باقر نجفی لاہور ہائی کورٹ کے جج ہیں جو 37 ہزار سے زائد فیصلے دینے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اور وہ مشہور ماڈل ٹاؤن کیس کے انکوائری کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔
- جسٹس کے کے آغا ان کا تعلق سندھ ہائی کورٹ سے ہے ، وہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ٹریبونلز میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
- جسٹس روزی خان بریچ، جسٹس روزی خان بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، 2025 میں اس عہدے پر فائز ہوئے۔
قانونی ذرائع کے مطابق عدالت کے ججوں کی ابتدائی تعداد ایک صدارتی آرڈر کے ذریعے مقرر کی جائے گی، جبکہ بعد میں اضافہ صرف پارلیمنٹ کے قانون سے ممکن ہوگا
وزارتِ قانون کے حکام کا کہنا ہے کہ صدر مملکت، وزیراعظم کی سفارش پر عدالت کے ججوں کی تقرری کریں گے۔وفاقی آئینی عدالت کی تجویز کو 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دوبارہ شامل کیا گیا ہے تاکہ سپریم کورٹ کا بوجھ کم ہو، آئینی مقدمات کا فیصلہ جلد ہو، اور عدلیہ کی خودمختاری مزید مضبوط بنے۔
وفاقی آئینی عدالت کا تصور سب سے پہلے 2006 کے چارٹر آف ڈیموکریسی (CoD) میں سامنے آیا تھا، جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان طے پایا تھا۔چارٹر میں تجویز دی گئی تھی کہ سپریم کورٹ اپیلوں پر توجہ دے، جبکہ آئینی تشریح کے معاملات کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی جائے۔بعد ازاں 26ویں ترمیم میں بھی یہ تجویز شامل کی گئی تھی لیکن جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتوں کی مخالفت پر اسے خارج کر دیا گیا تھا۔
نئی عدالت میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر کی گئی ہے، جو سپریم کورٹ سے تین سال زیادہ ہے۔عدالت کا ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں وفاقی شرعی عدالت کی عمارت میں قائم کیا جائے گا، جب کہ شرعی عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا جائے گا۔
وفاقی آئینی عدالت کو درج ذیل اختیارات حاصل ہوں گے:
آئین کی تشریح کرنا۔
وفاق اور صوبوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ کرنا۔
آئینی ترامیم، صدارتی احکامات یا پارلیمنٹ کے ریفرنسز پر قانونی رائے دینا۔
قانونی ماہرین کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے آئینی مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئے گی اور سپریم کورٹ پر موجود دباؤ میں کمی ہوگی۔ اس سے عدالتی نظام میں شفافیت، اعتماد اور ادارہ جاتی توازن کو فروغ ملے گا۔



Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.