لاہور: پنجاب حکومت نے حالیہ پرتشدد احتجاج کے بعد تحریک لبیک پاکستان (TLP) پر پابندی لگانے کی باضابطہ سفارش وفاقی حکومت کو بھیج دی ہے۔ یہ اقدام صوبے بھر میں امن و امان کی خراب صورتحال اور پولیس اہلکاروں پر حملوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور سرگرم کارکنوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ پولیس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر متعدد افراد کی فہرستیں تیار کر لی ہیں، جبکہ جمعہ کے روز ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے سخت سیکیورٹی پلان نافذ کر دیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے صوبے بھر میں 30 ہزار پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔
ان میں سے 12 ہزار اہلکار سادہ لباس میں سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔
لاہور کے حساس مقامات جن میں ملتان روڈ، ٹھوکر نیاز بیگ، شاہدرا، باغبان پورہ، چونگی امر سدھو اور بابو سابو انٹرچینج جیسے مقامات پر خصوصی سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے، جس کے تحت جلسے، جلوس، ریلیاں اور احتجاجی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد ہے۔
حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی شخص قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرتا ہے یا عوامی املاک کو نقصان پہنچاتا ہے، تو اس کے خلاف دہشتگردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کی اعلیٰ قیادت کو فورتھ شیڈول (Fourth Schedule) میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے، جس کے بعد ان کی نقل و حرکت اور مالی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام افراد جو نفرت انگیز تقاریر، اشتعال انگیزی یا تشدد میں ملوث پائے جائیں گے، ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔حکومتی ذرائع کے مطابق، ٹی ایل پی سے منسلک تمام بینک اکاؤنٹس، دفاتر، جائیدادیں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس ضبط کیے جا سکتے ہیں۔
نفرت انگیز مواد اور اشتعال انگیز ویڈیوز پھیلانے والے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 2021 میں بھی ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی، تاہم کچھ ماہ بعد سیاسی معاہدے کے بعد پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
مگر حالیہ تشدد اور احتجاجی واقعات کے بعد حکومت نے دوبارہ اس تنظیم پر پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔



 

 
Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.