معروف امریکی مالیاتی ادارے (Goldman Sachs) نے خبردار کیا ہے کہ چین کی نایاب ارضیاتی معدنیات (Rare Earth Elements) پر بڑھتی ہوئی گرفت دنیا بھر کی ہائی ٹیک سپلائی چینز کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، چین نایاب معدنیات کی کان کنی میں 69 فیصد، ریفائننگ میں 92 فیصد اور مقناطیسی مصنوعات (Magnets) کی تیاری میں 98 فیصد حصہ رکھتا ہے۔
یہ معدنیات بیٹریز، سیمی کنڈکٹرز، الیکٹرک گاڑیوں، دفاعی نظاموں، اور مصنوعی ذہانت (AI) میں استعمال ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر چین نے برآمدات میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو عالمی سطح پر 150 ارب ڈالر تک کا نقصان اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ خاص طور پر ساماریئم، لوتیٹیئم، ٹربیم اور گرافائٹ جیسی دھاتوں کی قلت عالمی صنعتوں کے لیے سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔
حالیہ مہینوں میں چین نے مزید پانچ نایاب عناصر پر برآمدی پابندیاں عائد کی ہیں اور سیمی کنڈکٹر صنعت کے لیے نئے نگرانی کے قوانین بھی متعارف کرائے ہیں۔
یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات متوقع ہے۔
معروف ادارے نے نشاندہی کی کہ کوبالٹ، تیل، قدرتی گیس سمیت دیگر اسٹریٹیجک دھاتوں کی سپلائی پر بھی جغرافیائی دباؤ بڑھ رہا ہے، جو عالمی معیشت کے لیے مزید خطرہ بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق، اگر دنیا چین کے بغیر نایاب معدنیات کی سپلائی بحال کرنا چاہے تو نئی کان کنی اور ریفائنریاں قائم کرنے میں 8 سے 10 سال لگ سکتے ہیں۔
امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان اس وقت متبادل سپلائی چینز بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ نایاب معدنیات کی عالمی کمی پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کے لیے چیلنج بھی ہے اور موقع بھی۔
اگر حکومت اس شعبے میں سرمایہ کاری کرے تو مستقبل میں معدنی وسائل برآمد کر کے بھاری زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔



 

 
Post A Comment:
0 comments:
If you share something with us please comment.